crossorigin="anonymous"> تمام اسٹیک ہولڈرز ذاتی انا کو ایک سائیڈ پر رکھ کر پاکستان کو بحران سے نکالیں۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ - societynewspk

تمام اسٹیک ہولڈرز ذاتی انا کو ایک سائیڈ پر رکھ کر پاکستان کو بحران سے نکالیں۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ

میں یوم شہدا کی تقریب سے بطور آرمی چیف آخری بار خطاب کر رہا ہوں: قمر جاوید باجوہ

راولپنڈی (سوسائٹی نیوز)

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم شہدا کی تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ ’بطور آرمی چیف میں آخری بار خطاب کر رہا ہوں۔‘

انھوں نے راولپنڈی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ میں فوج کے لیے اپنی 44 سالہ زندگی کے بعد ریٹائر ہو رہا ہوں۔‘

’میں شہدا کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان کے لواحقین کے صبر اور حوصلے کو داد دیتا ہوں اور انھیں یقین دلاتا ہوں کہ فوج کبھی انھیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ ہم آپ کی قربانیوں کا صلہ نہیں دے سکتے مگر آپ کے پیاروں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔‘

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا کہ ’فوج کا بنیادی کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر پاکستان فوج اپنی استعدداد سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ریکوڈک کا معاملہ ہو یا کارکے کا جرمانہ، فیٹف کے نقصان ہوں یا فاٹا کا انضمام، سرحد پر باڑ لگانا یا قطر سے سستی گیس منگوانا یا دوست ملکوں سے قرض کا اجرا ہو یا کووڈ کا معاملہ، سیلاب کے دوران امدادی کام ہو یا کچھ اور فوج نے ہمیشہ اپنی استعدداد سے بڑھ کر کام کیا ہے۔‘
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے وہ بھی ہمیشہ ناکام ہوں گے: قمر باجوہ
آرمی چیف نے کہا کہ ’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں گی؟ یہ ناممکن ہے بلکہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔‘

’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے وہ بھی ہمیشہ ناکام ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ فوج کی قیادت کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لیے ذرائع اور مواقع موجود تھے لیکن فوج نے ملک کے وسیع تر مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا۔

قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس صبر کی بھی ایک حد ہے۔ میں اپنے اور فوج کے خلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کر کے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ پاکستان سب سے افضل ہے باقی سب کچھ آتی جاتی رہتی ہیں۔‘
جعلی اور جھوٹے بیانیے سے اب راہ فرار اختیار کیا جا رہا ہے: آرمی چیف
آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ تنقید سیاسی پارٹیوں کا حق ہے لیکن الفاظ کا چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتی جانی چاہیے۔

’ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور ابھی اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔‘

آرمی چیف نے مزید کہا کہ سینیئر لیڈر شپ کو نامناسب القابات سے پکارا گیا۔

’میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ فوج کی قیادت کچھ بھی کر سکتی ہے مگر کبھی بھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جا سکتی۔‘
چند حلقوں نے فوج کے سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور غیر شائستہ زبان استعمال کی: قمر باجوہ
اپنی تقریر کے اختتام پر آرمی چیف نے کہا کہ وہ آج ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر بھی بات کرنا چاہیں گے۔

’میں کافی سال سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہندوستانی فوج کرتی ہے مگر ہم کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘

’اس کے برعکس ہماری فوج جو قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے، تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔‘

’میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ گذشتہ 70 سال کی فوج کی سیاست میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے۔ اس لیے پچھلے سال فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد فوج نے فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں تاہم اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کے بجائے چند حلقوں نے آرمی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا۔‘
اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا، یہ رویہ ترک کرنا ہو گا: قمر باجوہ
آرمی چیف نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ’میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ کوئی ایک پارٹی پاکستان کو اس معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی، اس کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر اپنی ذاتی انا کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ماضی سے غلطیوں سے سیکھیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔

آرمی چیف نے کہا کہ ’اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی رو کو سمجھتے ہوئے اور عدم برداشت کو ختم کرتے ہوئے ایک سچا جمہوری کلچر پیدا کریں۔ 2018 کے الیکشن میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔‘

’ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہو گا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ رائے عامہ احترام کا نام ہے

مکمل پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button